21 دسمبر 2025 - 14:31
امریکہ کی عالمی قیادت کا دور ختم ہو چکا ہے، فرید زکریا

فرید زکریا، خارجہ پالیسی اور بین الاقوامی تعلقات کے میدان میں دنیا کے مشہور ترین کے تجزیہ کاروں میں سے ایک ہیں جن کا کہنا ہے کہ وینزویلا اور مجموعی طور پر لاطینی امریکہ کے بارے میں ٹرمپ کا نیا رویہ 'امریکہ کے عالمی قیادت کے دور سے گذرنے' کی علامت ہے۔

بین الاقوامی اہل بیت(ع) نیوز ایجنسی ـ ابنا || امریکی صحافی، مصنف اور سیاسی مبصر فرید زکریا، ـ جو خصوصاً عالمی ترتیب، امریکی طاقت اور جغرافیائی-سیاسی (Geo-political) تبدیلیوں کے وسیع تجزیوں کے لئے مشہور ہیں، ـ نے فارن پالیسی کے لئے ایک مضمون میں دلیل دی ہے کہ "ڈونلڈ ٹرمپ کی خارجہ پالیسی، ـ خاص طور پر ان کی صدارت کے دوسرے اور آخری دور میں، ـ ایک پرانی لیکن طاقتور منطق کے بہت قریب زیادہ قریب پہنچ گئی ہے: اور وہ ہے "مونرو نظریہ" (Monroe Doctrine)۔"

یہ نظریہ، جس کی جڑیں انیسویں صدی میں پیوست ہیں ہیں، اس اصول پر مبنی ہے کہ مغربی نصف کرہ ریاستہائے متحدہ کے اثر کے خصوصی دائرے میں ہے اور بیرونی طاقتوں کو اس میں فیصلہ کن کردار نہیں ادا کرنا چاہئے۔"

تاہم، مونرو نظریئے کا 'ٹرمپک ورژن'، ایک سادہ رومانوی واپسی نہیں بلکہ یہ اس نظریئے کی جدید، سخت گیرانہ اور آئیڈیلزم سے عاری، تشریح ہے جس سے علاقائی اور عالمی ترتیب پر اثرات مرتب ہونگے۔

مغربی نصف کرہ؛ ٹرمپ کی خارجہ پالیسی کی اولین ترجیح

مصنف کے مطابق، ٹرمپ دنیا کو قواعد اور بین الاقوامی اداروں پر مبنی ایک نظام کے طور پر نہیں، بلکہ بڑی طاقتوں کے زیر اثر علاقوں کے ایک مجموعے کے طور پر دیکھتے ہیں۔ اس فریم ورک میں، مغربی نصف کرہ ایک خاص مقام رکھتا ہے: ایک ایسا خطہ جہاں امریکہ کو بالادست ہونا چاہئے اور کسی بھی اسٹراٹیجیک حریف ـ خاص طور پر چین اور روس ـ کو اس میں گہرا اثر و رسوخ حاصل کرنے کا مجاز نہیں ہونا چاہئے۔

اس نقطہ نظر سے، لاطینی امریکہ اور کیریبین کو امریکہ کے مساوی شراکت دار نہیں، بلکہ ریاستہائے متحدہ کی سلامتی کے دائرے کا حصہ سمجھا جاتا ہے؛ یہ نظریہ انیسویں صدی اور بیسویں صدی کے اوائل کی سامراجی پالیسیوں کی یاددہانی کراتا ہے۔

چین؛ مونرو نظریئے کے احیا کا بنیادی محرک

مضمون نگار زور دیتا ہے کہ اس منطق کی واپسی کا بنیادی محرک لاطینی امریکہ میں چین کے بڑھتے ہوئے اثر و رسوخ سے ٹرمپ کی گہری پریشانی ہے۔ بنیادی ڈھانچے، بندرگاہوں، کانوں اور توانائی اور مواصلاتی کے نیٹ ورکس میں چین کی سرمایہ کاری ٹرمپ کے نزدیک اقتصادی تعاون نہیں، بلکہ ایک جغرافیائی-سیاسی خطرہ ہے۔

نتیجتاً، امریکی پالیسی مثبت مسابقت (اور بہتر اقتصادی متبادل فراہم کرنے) کے بجائے سیاسی دباؤ، انتباہ اور دھمکی پر استوار ہو گئی ہے۔ اس نقطہ نظر نے خطے کی اکثر حکومتوں کو دفاعی اور مزاحمتی پوزیشن میں لا کھڑا کیا ہے۔

ٹرمپ کا مونرو نظریہ، جمہوریت اور انسانی حقوق کے بغیر

زکریا کے تجزیے کے اہم نکات میں سے ایک یہ ہے کہ ٹرمپ کا مونرو نظریہ، سرد جنگ کے دور کے نسخے کے برعکس، 'نظریاتی جواز' (اور معقول نظریاتی توجیہ) سے عاری ہے۔ ٹرمپ نہ تو جمہوریت کے فروغ میں دلچسپی رکھتے ہیں اور نہ ہی انسانی حقوق کو خارجہ پالیسی کا بنیادی معیار سمجھتے ہیں۔

لاطینی امریکہ کی حکومتوں کی حمایت یا مخالفت، محض امریکہ کے قلیل مدتی مفادات کے ساتھ ہم آہنگی کی بنیاد پر، کی جاتی ہے۔ آمرانہ حکومتیں، امیگریشن، سیکورٹی یا چین سے نمٹنے جیسے شعبوں میں واشنگٹن کے ساتھ تعاون کی صورت میں، سیاسی دباؤ سے محفوظ رہ سکتی ہیں۔

امیگریشن؛ خارجہ پالیسی کا داخلی پالیسی سے جوڑ

اس مشہور امریکی صحافی کے استدلال کے مطابق، 'ٹرمپ کی مغربی نصف کرہ کی پالیسی' شدت سے داخلی خدشات سے متاثر ہے۔ غیر قانونی امیگریشن، منشیات کی اسمگلنگ اور سرحدوں کی حفاظت جنوبی ہمسایہ ممالک کے ساتھ امریکی تعلقات کا بنیادی محور بن گئے ہیں۔

لاطینی امریکی ممالک عملاً امریکہ کی بیرونی سیکورٹی دیواریں بن گئے ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ان سے توقع کی جاتی ہے کہ وہ تارکین وطن کے بہاؤ کو روکیں، چاہے اس کی قیمت، انہیں اندرونی عدم استحکام یا انسانی حقوق کی خلاف ورزی کی صورت مہیں ہی کیوں ادا نہ کرنا پڑے۔

کثیر الجہتیت اور علاقائی اداروں کا زوال

اس نقطہ نظر کے فریم ورک میں، امریکی ممالک کی تنظیم (OAS) یا علاقائی معاہدوں جیسے کثیر جہتی اداروں کی اہمیت ختم ہو جاتی ہے؛ کیونکہ ٹرمپ دوطرفہ معاہدوں، براہ راست دباؤ اور ذاتی سفارت کاری کے ذریعے اپنی پالیسی کو آگے بڑھانا پسند کرتے ہیں۔

اس صورت حال کی وجہ سے تنازعات کے اجتماعی حل کی خواہشیں اور روشیں کمزور ہو چکی ہیں اور یکطرفہ رویوں میں اضافہ ہؤا ہے؛ ایسا رویہ جو طویل مدت میں امریکی قیادت کی قانونیت پر سوال اٹھا دیتا ہے۔

تزویراتی خطرات: نا رضامندی، خفیہ مزاحمت اور مشرق کی طرف رجحان

فرید اپنے مضمون کے ایک حصے میں خبردار کرتے ہیں کہ مونرو نظریئے کا احیا، اگرچہ قلیل مدت میں امریکی طاقت کے مظاہرے کا سبب بن سکتا ہے، لیکن طویل مدت میں اس کے الٹے نتائج برآمد ہو سکتے ہیں۔

زکریا کے بقول، ضرورت سے زیادہ دباؤ مندرجہ ذیل اثرات مرتب کر سکتا ہے:

- امریکہ مخالف جذبات کو ہوا اور تقویت دے سکتا ہے،

- حکومتوں کو چین اور روس کے ساتھ خفیہ یا کھلے تعاون پر مجبور کر سکتا ہے،

- یہ تاثر قائم کر سکتا ہے کہ امریکہ اپنا اثر و رسوخ مسابقت کے بجائے جبر کے ذریعے قائم کرتا ہے اور

- بہت سے ممالک بظاہر واشنگٹن کے ساتھ ہم آہنگ ہو کر، عملی طور پر اس پر انحصار کم کرنے کی کوشش کریں گے۔

زکریا اس نتیجے پر پہنچتے ہیں کہ مغربی نصف کرہ پر تسلط [اور اکتفا] پر مبنی ٹرمپ کی خارجہ پالیسی، ایک عارضی انحراف نہیں، بلکہ دنیا پر امریکی قیادت کے نظریئے میں گہری تبدیلی کی علامت ہے: عالمی قیادت سے زیر اثر علاقے کے انتظام کی طرف منتقلی۔

مونرو نظریہ، اس نئی تشریح میں، اب ایک دفاعی اصول نہیں رہا، بلکہ بڑی طاقتوں کی مقابلے کے دور میں طاقت کی نئی تعریف کا ایک ذریعہ ہے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ترجمہ: ابو فروہ

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

110

 

لیبلز

آپ کا تبصرہ

You are replying to: .
captcha